مہر خبررساں ایجنسی - بین الاقوامی گروپ:
حزب اللہ اور صیہونی حکومت کے درمیان چودہ ماہ تک فائرنگ کے تبادلے اور ہمہ گیر جنگ کے بعد بالآخر 27 نومبر 2024 کی صبح کو جنگ بندی کے آغاز کا دن قرار دیا گیا۔
ایسے وقت کہ میں جب عرب حکومتیں اسرائیل کے جرائم کی محتاط مذمت کے علاوہ کچھ نہیں کرسکیں، حزب کے مجاہدین شہید سید حسن نصر اللہ اور پھر ان کے جانشین شیخ نعیم قاسم کی قیادت میں غزہ کی حمایت اور لبنان کی سلامتی کی حفاظت کے لئے براہ راست میدان جنگ میں کود پڑے۔
عام شہریوں کے خلاف صیہونیوں کے جرائم کے باوجود، لبنان کی باشعور قوم کی ثابت قدمی نے مزاحمتی فورسز کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ الجلیل، حیفہ اور تل ابیب کے خلاف بڑے پیمانے پر جوابی حملے کرنے کے لئے اپنی فورسز کی تجدید کرسکیں۔
بیروت اور تل ابیب کا جنگی توازن اور جنوبی لبنان میں اسرائیل کی زمینی افواج کے اخراجات میں اضافے نے نیتن یاہو حکومت کو شمالی محاذ میں جنگ بندی کے قیام کی تجویز کو قبول کرنے پر مجبور کردیا، ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ صیہونی حکومت حزب اللہ کو شکست دینے میں کیوں ناکام رہی؟
جنگ بندی کی شرائط کیا ہیں؟
شمالی محاذ کی پیچیدہ میدانی مساوات نے ثالثوں اور مبصرین کو میدان جنگ کی موجودہ حقیقت کی صحیح تصویر فراہم کرنے سے عاجز بنادیا ہے۔
اس شناخت اور آگہی کے خلا کی میں موجودگی میں لبنان کی جنگ سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہر ایک نے اپنے مفادات کے مطابق منصوبہ پیش کرنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر، امریکیوں نے لبنان کے مستقبل کے صدر کے انتخاب اور مقبوضہ فلسطین اور لبنان کے درمیان بین الاقوامی سرحدوں کے تعین کے عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ انتہا پسند صہیونیوں نے لبنان کی اسلامی مزاحمت کے خلاف ڈھال بنانے کے مقصد سے شمالی محاذ پر ایک بفر زون بنانے کی بات کی اور آخر کار نیتن یاہو نے ایک ایسا طریقہ کار بنانے کی کوشش کی جس کے ذریعے وہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کو "جائز دفاع" کے بہانے قانونی شکل دے سکے جب کہ اسی دوران نبیہ بری نے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور حزب اللہ کے سیاسی نمائندے کی حیثیت سے دوسرے فریق کے بعض غیر معقول مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس میں لبنانی قومی ریاست کے مفادات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
صیہونی اخبار "یدیعوت احرونوت" کے مطابق حزب اللہ اور صیہونی حکومت کی طرف سے قبول کی گئی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کی بنیاد پر جنگ بندی مذاکرات میں درج ذیل شقیں شامل ہیں:
حزب اللہ اور لبنان کے تمام عسکری گروہ اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائی سے باز رہیں گے جب کہ جواب میں صیہونی حکومت کو زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے کسی بھی قسم کی جارحانہ کارروائی سے گریز کرنا ہوگا۔ اسرائیل اور لبنان کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کو تسلیم کرتے ہیں۔
یہ ذمہ داریاں اسرائیل یا لبنان کے اپنے دفاع کے حق کو استعمال کرنے کی نفی نہیں کرتی ہیں"
لبنان کی سیکورٹی اور فوجی دستے واحد مسلح گروہ ہیں جو جنوبی لبنان میں ہتھیار لے جانے یا کام کرنے کے مجاز ہوں گے۔
لبنان کو ہتھیاروں یا ہتھیاروں سے متعلق مواد کی فروخت، سپلائی اور پیداوار لبنانی حکومت کی نگرانی اور کنٹرول میں ہو گی
فریقین کی طرف سے قبول کردہ ایک کمیٹی قائم کی جائے گی؛ جو ان وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی اور مدد کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی، "فریقین کمیٹی اور UNIFIL کو وعدوں کی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کی اطلاع دیں گے۔
"لبنان اپنی سرکاری فوج اور سیکورٹی فورسز کو جنوبی علاقوں سمیت تمام سرحدوں پر تعینات کرے گا، صیہونی حکومت بتدریج زیادہ سے زیادہ 60 دن کی مدت میں نیلی لائن کے جنوب سے اپنی افواج کو ہٹا لے گی" اور امریکہ اس دوران اسرائیل اور لبنان کے درمیان تسلیم شدہ زمینی سرحد کے تعین کے لیے بالواسطہ مذاکرات کی حمایت کرے گا"۔
مزاحمت اب بھی زندہ ہے!
حزب اللہ کی تشکیل ہی ملک میں خانہ جنگی کے دوران ہوئی تھی کہ جب لبنان کا دارالخلافہ اسرائیلی، فرانسیسی اور امریکی افواج کے قبضے میں تھا اور انہوں نے سیاسی مہروں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا، حزب اللہ کے ابتدائی ارکان شہادت پسندانہ کارروائیوں کے ذریعے ہزاروں قابضین کو ہلاک کرکے لبنان کے سیاسی منظرنامے میں ایک اہم کردار کے طور پر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہوئے۔
80 کی دہائی کے ابتدائی سالوں سے لے کر نئی صدی کے پہلے سالوں تک، لبنان کی اسلامی مزاحمتی فورسز قابضین کو جنوبی لبنان سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوئیں اور لبنانی معاشرے کی طرف سے انہیں ایک قومی قوت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
اس مقبولیت کا دائرہ صرف شیعوں تک محدود نہیں تھا بلکہ ہر قبیلے کے لبنانی شہری حزب اللہ کو جنوبی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کا استعارہ سمجھتے تھے۔ حالیہ برسوں میں، شامات کے علاقے میں مذہبی فتنے کے باوجود، رائے عامہ اب بھی حزب اللہ کو فلسطینی محاذ کے حامیوں میں سے ایک قرار دیتی ہے۔
لبنان میں نیتن یاہو کے ناقابلِ حصول خوابوں سے پرے، عمل کے میدان میں جو کچھ ہوا وہ 2006 میں 33 روزہ جنگ کے بعد ایک تبدیلی تھی۔
جنگ کے ساتوں محاذوں پر تمام اخراجات کو قبول کرتے ہوئے، اسرائیل نے حزب اللہ کی فوجی طاقت کو ہمیشہ کے لیے کمزور کرنے اور اس گروہ کو لبنان کے اندر ایک غیر مسلح سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا۔
حزب اللہ کی قیادت کو ختم کرنا، اسلحے کی منتقلی کی شریانوں کو نشانہ بنانا، مزاحمت سے وابستہ مالیاتی مراکز پر منظم حملے اور آخر کار جنوبی لبنان کو غیر آباد بنانے کی کوشش، حزب اللہ کو آخری دھچکا پہنچانے کے لیے تل ابیب کے حکمران گروہ کے منظم جرائم کا ایک حصہ تھا۔
دوسری طرف، مزاحمت میدان جنگ میں ایک نئی مساوات قائم کرنے میں کامیاب رہی۔
مزاحمت نے مقبوضہ فلسطین میں بڑے پیمانے پر میزائلوں اور ڈرون حملوں کے ذریعے صہیونیوں کو یہ پیغام دیا کہ حزب اللہ روز بروز مضبوط ہو رہی ہے اور اب وہ افراد یا تجربہ کار کمانڈروں پر مبنی گروپ نہیں ہے۔
دوسرے لفظوں میں، مزاحمت کا لچکدار ڈھانچہ کم سے کم وقت میں حملہ آوروں کے خلاف دفاع کی جنگی قوت کو دوبارہ بنانے کے قابل بناتا ہے۔
حاصل کلام
حزب اللہ نے نہ صرف اسرائیل کی مسلح افواج کی پیش قدمی کو روکا بلکہ مغربی ایشیا کے علاقے میں نیٹو کے حملے کو بھی روک دیا۔
اگرچہ صیہونی حکومت کو "CENTCOM" سیکورٹی میکانزم کے ایک حصے کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ نیٹو کے رکن کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے جو کہ ہتھیاروں کی فراہمی اور فعالیت کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے ہر قسم کی اسٹریٹجک مدد ملتی ہے۔
صرف 2023-2024 میں، اسرائیل کو امریکہ سے 22 بلین ڈالر سے زیادہ کی فوجی امداد ملی اور مالیاتی ہتھیاروں کی امداد حاصل کرنے کے میدان میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔
لبنان کی حزب اللہ افواج کا معجزہ اس وقت زیادہ عیاں ہوا جب اس گروپ کے سینئر کمانڈروں کی شہادت اور اسرائیلی حملوں کے باوجود حزب اللہ اپنے آپریشنل یونٹس کو بحال کرنے اور مقبوضہ علاقوں کی گہرائیوں کو روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بنانے میں کامیاب رہی۔
الما انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل پر مزاحمتی حملوں میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ہوا۔ صیہونی حکومت کی جارحیت کا دائرہ وسیع کرنے سے پہلے اس حکومت کے حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حزب اللہ کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن حزب اللہ کی طاقت نے اس خواب کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا۔ اب لبنان کی اسلامی مزاحمت کے پاس موقع ہے کہ وہ حالیہ جنگ میں حاصل ہونے والے تجربات سے استفادہ کر کے فوجی اور سویلین یونٹس کی تعمیر نو اور مختلف شعبوں میں فورسز کی تجدید کی طرف قدم اٹھائے۔
آپ کا تبصرہ